وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے (١) اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے (٢) اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے (٣) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی (٤) اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے (٥) تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔
70۔ تورات و انجیل کی فضیلت و اہمیت بیان کرنے کے بعد اب قرآن کریم کی عظمت و اہمیت اور سابقہ سب کتابوں پر اس کی فوقیت بیان کی جا رہی ہے۔ قرآن کریم کو دیگر تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا، اور ان سب پر غالب اور ان سب کا نگراں و نگہبان قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم تمام آسمانی کتابوں کی منزل من جانب اللہ ہونے کی تائید کرتا ہے، ان کے غیر منسوخ احکام کی توثیق کرتا ہے اور منسوخ احکام کی وضاحت کرتا ہے، ان میں موجود اصول و مبادی کی حفاظت کرتا ہے، اور ان سب کتابوں پر غالب ہے، اس لیے کہ محکم اور منسوخ احکام کا اب صرف قرآن ہی مرجع ہے اور ان سب کا امین اور نگراں ہے، اس لیے کہ اب صرف قرآن بتاتا ہے کہ ان سابقہ آسمانی کتابوں کے کون سے احکام قابل عمل ہیں اور کون سے ترک کردئیے گئے ہیں۔ اس لیے (اے میرے رسول !) آپ ان کے درمیان صرف قرآن کے ذریعہ فیصلہ کریں، اور حق سے منحرف ہو کر گذشتہ اہل ادیان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ 71۔ اس میں گذشتہ امتوں کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل بھیجے جنہیں ان امتوں کے حالات کے تقاضے کے مطابق مختلف شریعتیں دی گئیں، لیکن عقیدہ توحید میں وہ سبھی ادیان متفق تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ ہم انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں، ہمارا دین ایک ہے، یعنی ہم سب دعوت توحید کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں (علاتی بھائی ان کو کہتے ہیں جن کے باپ ایک ہوں اور مائیں مختلف ہوں) اس میں گویا اہل تورات اور اہل انجیل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اب صرف رسول اللہ (ﷺ) کی اتباع کریں، اور قرآن آجانے کے بعد تورات و انجیل کو چھوڑ دیں، اس لیے کہ یہ دونوں کتابیں ان امتوں کے لیے واجب الاتباع تھیں جو اس دنیا میں ان دونوں کے منسوخ ہونے سے پہلے تھیں۔ 72۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی دین، ایک ہی کتاب اور ایک ہی رسول بھیج دیتا، لیکن چونکہ مقصود انہیں آزمانا تھا اسی لیے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء ورسل اور متعدد ادیان نازل کیے، تاکہ اللہ دیکھے کہ کون اس کی مشیت کے مطابق اپنے زمانے کی شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے، اور کون اپنی خواہشات کی اتباع کرتا ہے۔