وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ بدلے آنکھ اور ناک بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے (١) پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں۔ (٢)
64۔ اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ڈانٹ پلائی ہے، اس لیے کہ تورات میں یہ نص موجود ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے گی، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اس کی مخالفت کی اور نضری کے بدلے میں قرظی کو قتل کیا، اور قرظی کے بدلے میں صرف دیت پر اکتفا کیا، اسی طرح شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم تورات میں پہلے سے موجود تھا لیکن انہوں نے تورات میں تحریف کر کے کوڑے لگانے، منہ کالا کرنے اور گدھے پر بٹھا کر تشہیر کرنے پر اکتفا کیا اور یہی وجہ ہے کہ رجم والی آیت کی تحریف کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر ہوگا، اس لیے کہ وہاں انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے حکم کا انکار کردیا تھا اور یہاں انہیں ظالم کہا گیا، اس لیے کہ انہوں نے مظلوم کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ 2۔ فقہاء اور علمائے اصول فقہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے جو احکام قرآن میں بیان کیے گئے ہیں اور انہیں منسوخ نہیں قرار دیا گیا ہے، وہ ہمارے لیے بھی واجب العمل ہیں۔ تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے 3۔ تمام ائمہ کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا (نسائی)۔ 4۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اسی آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر ذمی کے بدلے مسلمان کو، اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ لیکن جمہور علماء نے ان دونوں مسائل میں ان کی مخالفت کی ہے، اس لیے کہ صحیحین میں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا مسلمان کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ائمہ سلف کے متعدد آثار ہیں کہ غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی (رح) نے ائمہ اسلام کا اس کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ 65۔ یہاں مراد ایسے زخم ہیں جن کا قصاص لینا ممکن ہوجیسے زبان، ہونٹ، چہرہ اور جسم کے باقی حصے کا زخم، جن زخموں کا قصاص لینے سے عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو، یا جن کی مقدار گہرائی، چوڑائی یا لمبائی میں معلوم کرنا ممکن نہ ہو ان میں قصاص نافذ نہیں کیا جائے گا۔ 66۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جو معاف کردے گا اللہ اس کے گناہوں کو درگذر فرمائے گا، اور دوسرا معنی یہ بتایا گیا ہے کہ اگر صاحب حق معاف کردے تو زیادتی کرنے والے سے قصاص اور دوسرے حقوق ساقط ہوجائیں گے۔ 67۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، انہیں یہاں ظالم اس لیے کہا گیا ہے کہ انہوں نے مظلوم کے ساتھ انصاف نہیں کیا، اور اللہ کے عادلانہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا