وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو (١) ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی (٢) تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
41۔۔ ذیل میں مذکورہ تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے آدم کے بیٹے ہابیل و قابیل کا واقعہ بیان کر کے حسد و سرکشی کا انجام بیان کیا ہے اور یہود کو یہ بتانا چاہا ہے کہ اگر وہ بھی حسد و سرکشی پر مصر رہے تو ان کا انجام بھی دنیا و آخرت میں بہت برا ہوگا۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ہابیل بکریاں پالتا تھا، اور قابیل کھیتی کرتا تھا، ہابیل نے اللہ کی رضا کے لیے ایک تندرست اور موٹی بکری ذبح کی، اور قابیل نے گھٹیا قسم کا اناج اللہ کی راہ میں نکالا، ہابیل کا صدقہ قبول ہوگیا، اور قابیل کی بدنیتی کی وجہ سے اس کا صدقہ قبول نہیں کیا گیا، جس کے نتیجہ میں قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔ بعض دوسرے مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ نسل آدم کی افزائش کے لیے اللہ نے حضرت آدم کے دین میں یہ جائز قرار دیا تھا کہ حوا کے ایک حمل سے پیدا شدہ لڑکے اور لڑکی کی شادی ان کے دوسرے حمل کے لڑکے اور لڑکی سے ہو۔ ہابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بدصورت تھی، اس لیے قابیل نے اپنی ہی بہن سے شادی کرنی چاہی، جھگڑا ختم کرنے کے لیے حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرو، ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، اور قابیل کی رد کردی گئی، جس پر وہ حسد میں مبتلا ہوگیا، اور ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں قتل کردوں گا، ہابیل نے کہا کہ اللہ اہل تقوی کی قربانی قبول کرتاہے، اگر تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اپنے آپ کو کوسو میرا اس میں کوئی قصور نہیں، تو پھر مجھے کیوں قتل کرو گے؟ اگر تم بطور ظلم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاؤ گے تو میں اپنے دفاع میں تمہیں قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ مجھے تو اللہ کا ڈر ہے جو سارے جہاں کا رب ہے۔ بخاری و مسلم نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! قاتل کے بارے میں بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ وہ اپنے مقابل کے قتل کے لیے پوری طرح کوشاں تھا۔