صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا (١)۔ ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔ (٢)
اس میں صراط مستقیم کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر سورۃ نساء میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ ہوں گے، اور یہ لوگ بڑے ہی اچھے ساتھی ہوں گے۔ یہ لوگ اہل ہدایت و استقامت ہوتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، اوامر کو بجا لاتے ہیں اور منکرات و منہیات سے باز رہتے ہیں۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی نیتیں فاسد ہوگئیں، جنہوں نے حق کو پہچان کر اس سے اعراض کیا، ایسے لوگوں میں پیش پیش ہمیشہ یہود رہے۔ جنہوں نے تورات میں موجود دلائل کی روشنی میں اسلام اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صداقت کا یقین کرلیا، لیکن عداوت و عناد کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا۔ اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان نہیں لائے۔ وَلَا الضَّاۗلِّیْنَ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے اسلام اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صداقت کا علم حاصل نہیں کیا، اور گمراہی میں بھٹکتے رہے۔ ایسے لوگوں میں پیش پیش نصاری رہے۔ عدی بن حاتم (رض) سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا ہے، اس میں آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم سے مراد یہود اور الضَّاۗلِّیْنَ سے مراد نصاری ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ولا الضالین کی (لا) تاکید کے لیے ہے، سامع کے دل میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ یہاں پر دو الگ الگ پرفساد راستوں کا ذکر ہے۔ ایک یہود کا راستہ اور دوسرا نصاری کا، تاکہ اہل ایمان دونوں راستوں سے بچیں۔ یہود نے حق پہچاننے کے بعد اس کی اتباع نہیں کی، اس لیے اللہ کے غضب کے مستحق بنے۔ اور نصاری نے حق کو پہچانا ہی نہیں، کیونکہ انہوں نے اس راہ کو اختیار ہی نہیں کیا، جس پر چل کر آدمی حق پاتا ہے، اس لیے وہ گمراہ ہوگئے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہود و نصاری سبھی گمراہ ہیں اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے، لیکن یہود اللہ کے غضب کے ساتھ، اور نصاری ضلالت و گمراہی کے ساتھ مشہور ہوگئے۔ ” آمین“ نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا مستحب ہے، جہری نمازوں میں بآواز بلند اور سری نمازوں میں آہستگی کے ساتھ۔ آمین کا معنی ہے۔ اے اللہ قبول فرما۔ وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا اور اپنی آواز کو کھینچ کر آمین کہی۔ ابو داود کی ایک روایت ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بلند آواز سے آمین کہی۔ امام ترمذی کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے اور اسی قسم کی روایات علی، ابوہریرہ اور ابن مسعود (رض) وغیرہم سے بھی مروی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ صف اول میں ان کے آس پاس کے لوگ سنتے۔ (ابوداود) ابوہریرہ (رض) ہی کی ایک اور روایت ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ : جب امام ” آمین“ کہے تو تم بھی کہو، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے (بخاری و مسلم)۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام ولا الضالین کہے تو، آمین کہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ (مسلم) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جہری نمازوں میں جب امام سورۃ الفاتحہ ختم کرلے تو تمام مقتدیوں کو بآواز بلند آمین کہنا چاہئے۔ اور اگر سری نماز ہے تو جب نمازی سورۃ الفاتحہ پڑھ لے تو آہستگی کے ساتھ آمین کہہ لے، تاکہ ان حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور آمین کہنے کی خیر و برکت حاصل ہو۔ کلمہ ” آمین قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے مصحف عثمانی میں اسے نہیں لکھا گیا “