وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے تم سے پیغمبر بنانے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا (١) اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا (٢)۔
40۔ ذیل میں مذکور سات آیتوں میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایک قسم کی تسلی دی گئی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو خبر دی ہے کہ اگر آپ کے زمانہ کے یہود آپ کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور آپ پر ایمان نہیں لاتے، تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، کیونکہ ان کے اسلاف نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ نے تم پر جو انعامات کیے ہیں انہیں یاد کرو، تم میں انبیاء مبعوث کیے اور تمہیں بادشاہوں کی حیثیت دی، کہ تم پر کسی دوسری قوم کی حکومت نہیں چلتی، اور تمہیں ایسی نعمتوں سے نوازا جو تمہارے زمانے کی دوسری قوموں کو نہیں ملیں۔ پھر کہا، اے میری قوم ! تم لوگ مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ، جس میں اللہ نے تمہارے لیے سکون و قرار رکھا ہے، تم لوگ شہر کا دروازہ کھول کر اچانک دشمن پر حملہ کردو، اور انہیں مغلوب بنالو، اور شکست خودرہ ہو کر پیچھے مڑ کر نہ بھاگو، لیکن انہیں نے ایک بات نہ مانی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ اے موسیٰ ! اس شہر میں تو جبابرہ لوگ رہتے ہیں، ہم تو وہاں نہیں جائیں گے، جب تک وہ لوگ اس شہر سے نکل نہیں جاتے۔ اور ان کی اس ذہنی شکست کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دس نقیبوں نے عمالقہ کے بارے میں اپنے قبائل کو ڈرایا تھا، صرف یوش بن نون اور کالب بن یوحنا نے راز کی حفاظت کی تھی، جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ دو آدمی جو اللہ سے ڈرنے والے تھے اور جن پر اللہ کا فضل تھا انہوں نے کہا کہ اگر تم لوگ اچانک شہر کے دروازے میں داخل ہوجاؤ گے تو غالب آجاؤ گے، اگر تم لوگ اہل ایمان ہو تو تمہیں اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ لیکن انہوں نے پوری خست و دناءت کے ساتھ جواب دیا کہ جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہوں گے ہم لوگ ہرگز داخل نہ ہوں گے، تم اور تمہارا رب جا کر ان سے جنگ کرے، ہم تو یہیں رہیں گے، تب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے اعلان برات کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے رب ! میں اور میرے بھائی ہارون اپنی اپنی ذات کے مالک ہیں (اس قوم سے ہم عاجز آگئے) اب ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ تو اللہ نے کہا کہ ہم نے چالیس سال تک کے لیے سرزمین مقدس کو ان پر حرام کردیا، یہ لوگ اب اسی صحرائے سینا میں بھٹکتے رہیں گے، آپ ان فاسق لوگوں کے بارے میں کوئی افسوس نہ کریں۔ لیکن نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ صحابہ کرام کا معاملہ بالکل ہی مختلف رہا، امام بخاری نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مقداد بن الاسود بدر کے دن مشرکین پر بددعا کرتے ہوئے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس آئے اور کہا اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جا کر جنگ کرے، ہم تو یہیں بیٹھیں گے ہم تو آپ کے دائیں، بائیں اور آپ کے آگے پیچھے جنگ کریں گے، ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا چہرہ اس بات سے چمکنے لگا۔