وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا (١) اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے (٢) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہوجائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔
32۔ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی بعض خیانتوں اور نقض میثاق کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقصود مؤمنوں کو تنبیہ کرنی ہے کہ اللہ نے ان سے جو عہد و میثاق لیا ہے، اس کا پاس رکھیں، اور جس طرح بنی اسرائیل نے ان سے لیے گئے مواثیق کو توڑ دیا اس طرح نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل سے بارہ نمائندے چنے اور انہیں قوم جبارین کا حال اور ان کی قوت و شوکت کا اندازہ کرنے کے لیے بھیجا، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ بہت ہی عظیم قوت کے مالک ہیں، اور ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے آپس میں طے کرلیا کہ بنی اسرائیل کو یہ بات نہیں بتائیں گے، صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو بتائیں گے، لیکن واپس آنے کے بعد ان میں سے دس نے خیانت کی اور اپنے اپنے رشتہ داروں کو بتادیا اور خبر پھیل گئی اور ان سے جنگ کرنے کا معاملہ سرد خانے میں پڑگیا، اور بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جا کر ان سے لڑے۔ حافظ ابن کثیر نے آیت کی تفسیر میں نقیب کا معنی عریف کیا ہے۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالی کے حکم سے بنی اسرائیل کے بارہوں قبائل سے بارہ عریف چنا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کی اطاعت کی بیعت لیں۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں مکہ مکرمہ میں عقبہ کی رات میں جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے انصار سے بیعت لی تو ان کی تعداد بھی بارہ تھی تین قبیلہ اوس کے اور نو خزرج کے تھے، انہی لوگوں نے مدینہ آ کر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے لوگوں سے بیعت لی تھی۔ اور امام بخاری و مسلم نے جابر بن سمرہ (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفائے اسلام کی تعداد بھی بارہ ہوگی، لیکن یہ وہ بارہ ائمہ نہیں ہوں گے جن کا رافضی شیعہ باطل اعتقاد رکھتے ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ 33۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے، زکاۃ دو گے، میرے رسولوں پر ایمان لے آؤ گے ان کا ساتھ دو گے، اور فرض زکاۃ کے علاوہ اپنے مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو میری نصرت و حمایت تمہارے ساتھ ہوگی، نیز میں تمہارے گناہوں کو معاف کردوں گا، اور تمہیں جنتوں میں داخل کروں گا۔