فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
(5/6) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ابتدائے بعثت میں نبی کریم (ﷺ) کو بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، پھر آہستہ آہستہ حالات بہ سے بہتر ہوتے گئے، حتی کہ اللہ نے آپ کا شرح صدر فرما دیا، آپ کے دل پر جو بار گراں تھا اسے دور کردیا اور آپ کا ذکر جمیل سارے عالم میں پھیلا دیا اللہ تعالیٰ کا یہی نظام حیات ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی لاتا ہے آدمی جب اپنی فکر و نظر استعمال کر کے مشکلات سے نکلنا چاہتا ہے اور پھر اللہ پر بھروسہ کر کے آگے بڑھتا جاتا ہے اور ہمت نہیں ہارتا، تو طوفان رک جاتا ہے آندھیاں بند ہوجاتی ہیں اور بالاخر سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے یہی حال نبی کریم (ﷺ) کا تھا، ابتدائے نبوت میں آپ کو اور آپ کے اصحاب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مرور زمانہ کے ساتھ حالات نے پلٹا کھایا اور تنگی آسانی میں بدلتی چلی گئی۔ ابن جریر، عبدالرزاق، حاکم اور بیہقی نے حسن بصری سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ ایک دن نبی کریم (ﷺ) گھر سے بہت خوش نکلے اور فرمایا کہ ایک تنگی دو آسانیوں کو مغلوب نہیں کرسکتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا Ĭ ” بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ “ طبرانی، حاکم اور بیہقی وغیرہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) بیٹھے تھے اور آپ کے سامنے ایک سوراخ تھا آپ نے فرمایا :” اگر تنگی اس سوراخ میں داخل ہوگی تو آسانی آئے گی اور اس میں داخل ہو کر اسے نکال دے گی“ تو اللہ تعالیٰ نے ﴿فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا Ĭ نازل فرمایا۔ اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن مفسرین نے اس آیت کی جو تفسیر بیان کی ہے اس سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔