كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ
ایسا ہرگز نہیں (١) بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے (٢)
( 17)اوپر جو بات کہی گئی ہے کہ دونوں ہی حالتوں میں ان کی تفکیر صحیح نہیں ہوتی، اسی کی طرف اس آیت کریمہ میں لفظ ” کلا“ سے اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر ہو شخص جس کو ہم نے دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے وہ ہمارا چہیتا ہے اور ہر وہ آدمی جس پر ہم نے روزی کا دروازہ تنگ کردیا ہے اسے ہم نے ذلیل کردیا ہے بلکہ دونوں ہی حالتوں سے مقصود بندوں کو آزمانا ہے کہ کون شاکر و صابر ہوتا ہے اور کون ناشکر گزار اور بے صبرا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہی انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہاری فکر و نظر کی جو خرابی اوپر بیان کی گئی ہے، اس سے بڑھ کر قبیح تمہارا یہ عمل ہے کہ تمہیں اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دوسروں کے لئے بھلائی سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ تمہاری خود غرضی، مادہ پرستی اور خست نفس کا عالم یہ ہے کہ تم یتیموں کا بالکل خیال نہیں کرتے، انہیں تم اپنا مال کیا دو گے کہ ان کا مال بھی کھا جاتے ہو۔