سورة الفجر - آیت 3

وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جفت اور طاق کی !۔ (١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(3)تیسری چیز ” شفع“ اور ” وتر“ ہے۔ شوکانی نے اس کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال نقل کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان میں سے اکثر اقوال کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ کلام عرب میں ان سے جو مراد ہے، اسے ہی اختیار کیا جائے اور عربی زبان میں ” شفع“ جوڑے کو اور ” وتر“ فرد کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے آیت میں ” شفع“ اور ” وتر“ سے وہ تمام مخلوقات مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جوڑا یا فردپیدا کیا ہے۔ مجاہد اور عطیہ عوفی نے سے مخلوق اور خالق مراد لیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ نے ہر مخلوق کو جوڑا پیدا کیا ہے سورۃ الذاریات آیت(49) میں آیا ہے : ﴿وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ Ĭ” ہم نے ہر چیز کو جوڑاپیدا کیا ہے، تاکہ تم عبرت حاصل کرو“ آسمان و زمین، بحر و بر، جن وانس، شمس و قمر، کفر و ایمان، سعادت وشقاوت، ہدایت و ضلالت اور لیل و نہار، سب جوڑے ہیں۔ اور ” وتر“ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جو ایک اور تنہا کے معنی میں ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ نے اپنی ذات اور اپنی مخلوق کی قسم کھائی ہے۔