وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے (١) اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
100۔ اس آیت میں قتل عمد کا حکم بیان کیا گیا ہے، کہ کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیتا ہے، تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی، اور قیامت کے دن اللہ نے اس کے لیے ایک بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے قتلِ عمد اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ نے متعدد آیات میں اسے شرک باللہ کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسا کہ سورۃ الفرقان آیت 68 میں ہے ، اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی نفس کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور احادیث میں بھی اس کی بڑی وعید آئی ہے۔ جیسا کہ ترمذی نے ابو سعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر آسمان و زمین کے تمام رہنے والے ایک مؤمن کے قتل میں شریک ہوجائیں، تو اللہ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔ کسی مؤمن کو قصداً قتل کرنے والے کی توبہ قبول کی جائے گی یا نہیں، اس کے بارے میں صحابہ کا اختلاف رہا ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس کی توبہ نہیں قبول ہوگی۔ بخاری نے سعید بن جبیر سے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت آخری دنوں میں نازل ہوئی، اور کسی دوسری آیت نے اسے منسوخ نہیں کیا ہے۔ مسلم، نسائی اور ابو داود نے ایک دوسری اسی معنی کی حدیث ابن عباس (رض) ہی سے روایت کی ہے، جس کے آخر میں ہے کہ اس آیت کے بعد کوئی دوسری آیت نازل نہیں ہوئی جو اسے منسوخ کرے، زید بن ثابت، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، حسن اور قتادہ وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ اور جمہور علمائے امت کا قول ہے کہ قاتل عمد کی اس کے اور اس کے رب کے درمیان توبہ ہے، اگر توبہ کرلے، اور عمل صالح کے ذریعہ اپنی حالت درست کرلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور مقتول کو اس کی مظلومیت کا اچھا بدلہ عطا کر کے اسے خوش کردے گا، سورۃ الفرقان کی جو آیت ابھی گذری ہے، اس میں شرک باللہ قتل عمد اور زنا جیسے جرائم کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا ہے، ۔ کہ جو شخص توبہ کرلے گا، اور ایمان لے آئے گا، اور عمل صالح کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور بے شک اللہ غفور رحیم ہے۔ اللہ نے سورۃ الزمر آیت 53 میں فرمایا ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، ان دونوں آیتوں میں تمام گناہوں کے بارے میں حکم عام ہے کہ صدق دل سے توبہ کرنے سے اللہ انہیں معاف کردیتا ہے۔ اور اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ قتل عمد کا مرتکب جہنم میں ضرور داخل ہوگا، یا تو اس لیے کہ ابن عباس (رض) وغیرہ کے قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، یا جمہور کے قول کے مطابق کہ اس کے پاس کوئی عمل صالح نہیں، تو بھی وہ جہنم میں ہمشیہ کے لیے نہیں رہے گا، اس لیے کہ آیت میں خلود فی النار سے مراد لمبی مدت ہے، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی ایمان ہوگا، وہ جہنم سے نکال دیا جائے گا۔ یہاں ایک سوال اور رہ جاتا ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ توبہ کے ذریعہ کسی کا حق ساقط نہیں ہوجاتا ہے، اس لیے توبہ کرنے کے بعد بھی مقتول کا حق قاتل کی توبہ قبول کرلے گا، تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مقتول کو اس کی مظلومیت کا اتنا اچھا بدلہ دے گا کہ وہ خوش ہوجائے گا اور قاتل کی توبہ قبول ہوجانے کی وجہ سے وہ بھی اللہ کے فضل وکرم سے جنت میں بھیج دیا جائے گا فائدہ : دنیا میں مقتول کے اولیاء کو اختیار ہے، چاہیں تو قصاص لیں، چاہیں تو معاف کردیں، اور چاہیں تو دیت مغلظہ لے لیں، یعنی سو اونٹنیاں، اس اجمال کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن اگر مقتول کے اولیاء اسے معاف کردیں، یا دیت لینے پر راضی ہوجائیں، تو کیا اسے کفارہ بھی دینا ہوگا؟ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ ہاں، اسے کفارہ دینا ہوگا، اس لیے کہ جب قتل خطا میں کفارہ واجب ہے، تو قتل عمد میں بدرجہ اولی واجب ہوگا۔