فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ منافقوں میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ (١) انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کردیا ہے۔ (٢) اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کئے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالیٰ راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا (٣)
95۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں منافقین سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی ہیں، جو غزوہ احد کے موقع سے میدانِ جنگ کی طرف جاتے ہوئے راستہ سے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ساتھ چھوڑ کر واپس آگئے تھے۔ بخاری مسلم، احمد اور ترمذی نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب غزوہ احد کے لیے نکلے، تو کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ نکلے تھے، راستہ سے واپس ہوگئے، ان کے بارے میں صحابہ کرام کی دو رائے ہوگئی، کچھ لوگوں نے کہا نہیں وہ مسلمان ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان منافقین کا نفاق ظاہر کیا، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بھی فرمایا کہ یہ طیبہ شہر ہے، زنگ اور گندگی کو اس طرح الگ کردیتا ہے جیسے لوہار کی بھاتی لوہے کا زنگ الگ کردیتی ہے ۔ اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں مسند احمد میں عبدالرحمن بن عوف (رض) سے ایک دوسری روایت بھی مروی ہے کہ کچھ عرب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس مدینہ منورہ آئے، اور مسلمان ہوگئے، لیکن وہ مدینہ منورہ کے مشہور بخار میں مبتلا ہوگئے، تو اسلام سے برگشتہ ہو کر وہاں سے نکل پڑے، راستہ میں کچھ صحابہ کرام نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں واپس جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی بیماری سے ہم تنگ آگئے تھے، صحابہ نے کہا کیا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے لیے بہترین نمونہ نہیں تھے؟ پھر ان کے بارے میں صحابہ کا اختلاف ہوگیا، کسی نے کہا یہ لوگ منافق مدینہ، اور دیگر منافقین عرب سبھوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہو، اور اختلاف نے شدت پکڑ لیا ہو، تو یہ آیت نازل ہوئی