عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔
(1/2/3/4/5/6/7)ترمذی، ابن المنذر، ابن حبان، حاکم اور ابن مردویہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ﴿ عَبَسَ وَتَوَلَّىٰĬ ابن ام مکتوم (نابینا) کے بارے میں نازل ہوئی تھی یہ صحابی رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آئے اور آپ سے کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ مجھے کچھ رشد و ہدایت کی بات بتائیے، اور آپ کے پاس (اس وقت) سردار ان مشرکین مکہ بیٹھے تھے اسلئے آپ ان سے منہ پھیرنے لگے تو یہ سورت نازل ہوئی۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید اور ابویعلی نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس آئے تو آپ ابی بن خلف سے بات کر رہے تھے اس لئے آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، تو ﴿عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰĬ نازل ہوئی، آپ (ﷺ) اس کے بعد ابن ام مکتوم کی عزت کرنے لگے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ یہ نابینا صحابی خدیجہ (رض) کے ماموں زاد بھائی تھے اور مکی دور کی ابتدا میں ہی اسلام لائے تھے، اور مدنی دور میں نبی کریم (ﷺ) اکثر غزوات کے وقت ان ہی کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کریم (ﷺ) نے نابینا صحابی کے لیے اپنا چہرہ سکیڑ لیا، اس سے منہ پھیر لیا اور اس سے بات کرناگوارہ نہیں کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو، اس کی طرف توجہ دینے سے وہ صنادید قریش برامان جائیں جن کے سامنے آپ (ﷺ) ایمان و اسلام کی تشریح فرما رہے تھے، آپ کا یہ اعراض دعوتی نقطہ نگاہ سے مفید نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اخلاص و رغبت کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے آیا تھا، اس کی خواہش تھی کہ آپ سے علم حاصل کر کے اپنی روح کا تزکیہ کرے، برے اخلاق سے اجتناب کرے، اور اخلاق حمیدہ کو اپنائے، یا آپ سے نصیحت کی باتیں سن کر ان سے مستفید ہو اور جو شخص اپنی دولت اور قوم میں اپنے جاہ و منزلت کی وجہ سے گردن اکڑائے ہوئے ہے، اور ایمان و اسلام اور وحی و رسالت کی بات سننے کے لئے تیار نہیں، اسی کی طرف آپ لپکے جا رہے ہیں اور اسی پر اپنی پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، حالانکہ اگر وہ متکبر اسلام کو قبول نہیں کرتا اور اس کا تزکیہ نفس نہیں ہوتا تو آپ کا کیا نقصان ہوگا، آپ کی ذمہ داری تو صرف پیغام رسانی ہے، اس لئے جو کفار اسلام سےاظہار استغناء کرتے ہیں آپ ان کی فکر نہ کریں۔