سورة النسآء - آیت 77

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا (١) کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا ؟ (٢) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

84۔ اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صحابہ کی ایک جماعت کے سلسلہ میں نازل ہوئی، جنہوں نے مکی زندگی میں مشرکین کے ظلم و ستم سے تنگ آکر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے قتال کی اجازت مانگی تھی، تو آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ ابھی مجھے اللہ کی طرف سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے، ابھی نماز اور صدقات و خیرات کے ذریعہ غریب مسلمانوں کی مدد کرنے پر اکتفا کرنا چاہیے، لیکن جب مدنی زندگی میں جہاد فرض ہوا تو ان ہی میں سے ایک جماعت موت کے ڈر سے جنگ سے کترانے لگی تو یہ آیت نازل ہوئی ، بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت یہود مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے جہاد فرض ہونے کے قبل اسلام کا اعلان کردیا تھا، اور جب جہاد فرض ہوا، تو مارے ڈر کے ان کی جان مصیبت میں پڑگئی، امام شوکانی کہتے ہیں کہ یہی تیسرا قول آیت کے سیاق کے زیادہ قریب ہے، اس لیے کہ ان لوگوں نے کہا تھا اے اللہ تو نے ہمارے اوپر جہاد کیوں فرض کیا؟ نیز اللہ نے ان لوگوں کی یہ صفت بیان کی کہ اگر انہیں بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کہتے ہیں۔ کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے، اور اس طرح کے اقوال صحابہ کرام سے صادر نہیں ہوسکتے تھے۔ صاحب محاسن التنزیل نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ ابن عباس (رض) کی جو روایت نقل کی جاتی ہے کہ یہ مکی زندگی میں صحابہ کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی، تو وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے اور مکی زندگی میں جبکہ مسلمان نہایت درجہ کمزور تھے، اسلام کا اعلان کرنے سے ڈرتے تھے، یہ بات بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے جنگ کرنے کی اجازت مانگی ہوگی، اور آیت میں ان لوگوں کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی زیادہ، یہ صفت کافر یا منافق کی ہوسکتی ہے، مسلمان کی نہیں۔ آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا قول اور موت سے ان کے خوف و دہشت کا ذکر کیا، اس کے بعد نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ دنیاوی لذتیں چند ہی دنوں میں ختم ہوجانے والی ہیں۔ اور نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب ہمیشہ باقی رہے گا۔