سورة النسآء - آیت 75

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا (١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

82۔ اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ پر اکسایا جا رہا ہے، تاکہ مکہ میں موجود ان کمزور مسلمان مردں، عورتوں اور بچوں کو قریش کے ظلم و ستم سے نجات دلایا جا سکے۔ جنہیں مشرکین نے ہجرت کرنے سے روک دیا تھا، بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ان دنوں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب نماز میں رکوع سے سر اٹھاتے تو کچھ کمزور مسلمانوں کے نام لے لے کر مشرکینِ مکہ سے ان کی نجات کے لیے دعا کرتے تھے آیت میں سے مراد مکہ، اور سے مراد وہاں کے مشرکین ہیں اور سے مراد اللہ کا کوئی ایسا بندہ جس کے ذریعہ ان کمزور مسلمانوں کے دین کی حفاظت ہو اور نصیرا سے مراد کوئی ایسا آدمی جو دشمنوں سے انہیں نجات دلا سکے۔ چنانچہا للہ نے ان کی دعا سن لی، ان میں سے کچھ تو نکل کر مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، اور کچھ وہیں رہے، یہاں تک کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مکہ کو فتح کیا، اور اللہ نے وہاں کے باقی ماندہ مسلمانوں کو ذلت کے بعد عزت عطا کی