وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا
اور یقیناً تم میں بعض وہ بھی ہیں جو پس و پیش کرتے ہیں (١) پھر اگر تمہیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔
80۔ یہاں منافقین مراد ہیں، جو نفاق کی وجہ سے جہاد کے لیے نہیں نکلتے تھے، اور دوسروں کی ہمت بھی پست کردیتے تھے، عبداللہ بن ابی بن سلول کی تو یہ خاص عادت تھی، غزوہ احد کے موقع سے اسی نے لوگوں کو بھڑکایا تھا، اور منافقین کی جماعت کو لے کر راستہ سے واپس چلا گیا تھا، جہاد میں مسلمانوں کو جب تکلیف پہنچتی تو منافقین کہتے کہ اچھا ہوا کہ ہم لوگ ان مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے، اور جب غلبہ نصیب ہوتا، اور مال غنیمت ہاتھ آتا، تو اس طرح اظہار افسوس کرتے کہ جیسے مسلمانوں سے ان کی پہلے سے کوئی شناسائی ہی نہیں تھی، اور کہتے کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو مال غنیمت ہاتھ آتا