سورة الجن - آیت 6

وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے (١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(6) جنوں نے اپنی قوم کے افراد سے یہ بھی بتایا کہ اسلام آنے سے پہلے انسانوں میں سے کچھ لوگ، جنوں کے کچھ افراد کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے اور ان جنوں کے گناہ اور اللہ سے ان کی سرکشی میں اضافہ کردیتے تھے۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بعض آدمی جب کسی وادی میں رات گزارتے تو کہتے : میں اس وادی کے زبردست جن کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں تو یہ چیز جنوں کے گناہ اور اللہ سے ان کی سرکشی میں اضافہ کردیتی تھی اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب لوگ کسی وادی میں پڑاؤ ڈالتے تو کہتے کہ ہم اس وادی کے سردار کے ذریعہ اس میں موجود برائی سے ہم پناہ مانگتے ہیں، تو ان کی یہ بات جنوں کو بہت زیادہ پسند آتی۔ انتہی ۔ آیت کریمہ میں زمانہ جاہلیت کے اسی اعتقاد کی طرف اشارہ ہے کہ وادیاں جنوں کے رہنے کی جگہیں ہیں اور ان کے سردار ان میں پڑاؤ ڈالنے والوں کو دیگر جنوں سے بچاتے ہیں۔ ابن زید کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جب کوئی آدمی کسی وادی میں پڑاؤ ڈالتا تو کہتا : میں اس وادی کے سردار کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں جب اسلام آگیا تو لوگ اللہ کے ذریعہ پناہ مانگنے لگے اور جنوں کو چھوڑ دیا۔ امام مسلم نے ” کتاب الذکر و الدعاء“ میں خولہ بنت حکیم کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی جگہ پڑاؤ ڈالے تو کہے :” اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق“ ” میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعہ اس کی مخلوقات کے شر سے پناہ مانگتا ہوں‘ تو اس سے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی، یہاں تک کہ وہ وہاں سے کوچ کر جائے۔ اس حدیث سے مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر پر روشنی پڑتی ہے کہ انسانوں کا جنوں کے ذریعہ پناہ مانگنا شرک ہے۔