وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَىٰ بِاللَّهِ نَصِيرًا
اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونا کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کا مددگار ہونا بس ہے۔
آیات 45، 46 میں اللہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ مسلمانوں کے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور وہ مسلمانوں کا دوست اور مددگار ہے، اسی لیے ان کے دشمنوں سے آگاہ کر رہا ہے، یہود اللہ کے کلام (تورات) کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بدل دیتے تھے اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کفر و عناد میں کہتے کہ ہم نے تیری بات سنی اور تیری نافرمانی کی، اور یہ بھی کہتے کہ اللہ کرے کہ تو ہماری بات نہ سنے اور جب وہ راعنا کہتے جس کا ظاہر معنی ہے ہمارا خیال کیجئے تو اپنی زبان مروڑتے تاکہ اس کا معنی بدل کر چرواہا یا احمق ہوجائے اللہ تعالیٰ نے انہی یہودیوں کے خبث باطن کو بیان کرتے ہوئے نصیحت کی کہ اگر وہ کہتے کہ ہم نے تیری بات سنی اور اطاعت کی، اور کہتے کہ تم میری بات سنو اور ہمارا خیال کرو، تو ان کے لئے بہتر تھا، لیکن اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی تھی۔ اس لیے وہ صرف نام کے لیے ایمان لاتے تھے۔