سورة الطلاق - آیت 2

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس جب یہ عورتیں اپنی عدت کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو (١) اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو (٢) اور اللہ کی رضامندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو (٣) یہی ہے وہ جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے (٤)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(2) مطلقہ عورت کی عدت کا زمانہ جب ختم ہونے کے قریب ہو، تو شہر اسے یا تو اس کے تمام حقوق کے ساتھ لوٹالے، یا اس کے حقوق ادا کر کے بغیر اختلاف و نزاع پیدا کئے اور اس کے لئے مشکلات کھڑی کئے بغیر، اسے اس کے حال پر چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کی عدت گذر جائے اور بائنہ ہو کر اپنے خویش و اقارب کے پاس چلی جائے۔ الآیۃ میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ طلاق دینے والے رجوع کرنے اور ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینے، دونوں ہی حالتوں میں، دو دیانت دار و امانت دار مسلمان کو گواہ بنائیں، تاکہ آئندہ اختلاف و نزاع کا دروازہ بند ہوجائے، ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی مطلقہ بیوی کو واپس لے لیتا ہے تو اب اس کے پاس دو طلاقیں باقی رہ جائیں گی۔ اور اگر اسے واپس نہیں لیتا اور اس کی عدت گذر جاتی ہے تو وہ ایک طلاق کے بعد بائنہ ہوجائے گی اور اب اسے اختیار ہے، چاہے تو اسی سے دوبارہ شادی کرلے یا چاہے تو کسی دوسرے سے کرلے۔ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت کی ہے کہ رجعت یا طلاق کے سلسلہ میں جو بھی گواہی ہو، اسے گواہان محض اللہ کی رضا کے لئے ادا کریں، شوہر یا مطلقہ کی خاطر اس میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کریں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ابتدائے سورت سے یہاں تک جو احکام بیان کئے گئے ہیں ان سب پر عمل وہ شخص کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، کیونکہ اللہ کے عقاب سے ایسا ہی آدمی ڈرتا ہے اس لئے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتا ہے۔