وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور دوسروں کے لئے بھی انہی میں سے جو اب تک ان سے نہیں (١) ملے۔ وہی غالب با حکمت ہے۔
(3) اس آیت میں ” آخرین“ آیت (2) کے کلمہ ” الامین“ پر معطوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو ان عربوں کے لئے نبی بنا کربھیجا جو عہد رسالت میں موجود تھے، اور ان عربوں کے لئے بھی جو صحابہ کرام کے بعد قیامت تک پیدا ہوں گے۔ بعض مفسرین نے سے اہل عجم مراد لیا ہے جو اسلام میں داخل ہوئے اور قیامت تک داخل ہوتے رہیں گے اور کہا ہے کہ عجمی مسلمان اگرچہ عرب نہیں تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد انہی میں سے ہوگئے اور ایک امت بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (17) میں فرمایا ہے : ” مؤمن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہوتے ہیں“ امام احمد اور بخاری و مسلم وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نبی کریم (ﷺ) کے پاس بیٹھے تھے کہ سورۃ الجمعہ نازل ہوئی۔ آپ (ﷺ) نے جب لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ Ĭ تک پہنچے، تو ایک صحابی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے ملے نہیں ہیں، تو آپ (ﷺ) نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کے جسم پر رکھ کر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تو اسے اس کی قوم کے کچھ لوگ پا لیں گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت دلیل ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔