هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
(2) ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ” امیون“ سے مراد تمام عرب ہیں، چاہے وہ پڑھنا جانتے ہوں یا نہیں، اس لئے کہ قرآن کریم سے پہلے ان کو کوئی آسمانی کتاب نہیں دی گئی تھی اور نبی کریم (ﷺ) کا ” ان پڑھ“ ہونا ان کے صدق نبوت کی دلیل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس نے عربوں کے لئے (جو ان پڑھ تھے) انہی جیسا ایک ان پڑھ نبی مبعوث فرمایا جو ان پڑھ ہونے کے باوجود اللہ کی آیتیں پڑھ کر انہیں سناتے تھےان کے جسموں کو گندگیوں اور آلائشوں سے اور ان کی روحوں کو غلط عقائد اور خبیث اخلاق سے پاک کرتے تھے اور انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دیتے تھے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اہل عرب نبی کریم (ﷺ) کی بعثت سے پہلے بڑی ہی شدید گمراہی میں مبتلا تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اخلاق عالیہ اور آداب حسنہ سے یکسر بے بہرہ ہوچکے تھے، اس لئے وہ ایک نبی مرسل کے ذریعہ ہدایت و رہنمائی کے شدید محتاج تھے اس وقت اللہ نے ان پر کرم کیا اور نبی کریم (ﷺ) کو مبعوث فرمایا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کا عربوں میں پیدا ہونا، اس بات کے منافی نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا والوں کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت (158) میں فرمایا ہے : قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا Ĭ” اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ لوگو ! میں تم سب کے لئے اللہ کا رسول ہوں۔ “ اور سورۃ الانعام آیت (91) میں فرمایا ہے : ” تاکہ اس قرآن کے ذریعہ میں تمہیں اور ان سب کو اللہ سے ڈراؤں جن تک میرا پیغام پہنچے۔ “