يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ (١) تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو (٢) اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو (٣) اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو (٤) ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا (٥)۔
(1) اس بات پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سورت کی ابتدائی آیتوں کا سبب نزول حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کا واقعہ ہے جو مہاجرین اولین اور بدری صحابیوں میں سے ہیں۔ امام احمد، بخاری و مسلم اور محمد بن اسحاق نے اپنی صحیح سندوں کے ساتھ اس بارے میں جو روایتیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، عروہ بن الزبیر اور دیگر علمائے سیرت و تاریخ سے نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب اہل مکہ نے معاہدے کی پابندی نہیں کی تو رسول اللہ (ﷺ) نے مکہ پر چڑھائی کرنے کا پختہ عزم کرلیا اور مسلمانوں کو ایک غزوہ میں شرکت کے لئے تیار ہونے کا حکم دے دیا اور یہ بات چند ہی صحابہ کرام کو بتائی کہ ان کا ارادہ فتح مکہ کا ہے حاطب بن ابی بلتعہ (رض) مکہ کے رہنے والے نہیں تھے وہ کہیں دوسری جگہ سے آ کر وہاں عثمان بن عفان (رض) کے حلیف کی حیثیت سے اقامت پذیر ہوگئے تھے، وہ خود تو ہجرت کر کے آگئے تھے لیکن ان کی اولاد اور ان کے بھائی اور چچا وغیرہ ابھی مکہ میں ہی تھے، انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمانوں نے مکہ پر حملہ کیا تو دوسرے مہاجر صحابہ کے خاندان والے وہاں موجود ہیں جو مکہ میں موجود ان کے بال بچوں کو قتل ہونے سے بچا لیں گے، ان کے خاندان والے وہاں نہیں ہیں، اس لئے اگر وہ بعض اعیان قریش کو نبی کریم (ﷺ) کے ارادے سے مطلع کردیں گے تو وہ ضرورت کے وقت ان کے بچوں اور رشتہ داروں کو قتل ہونے سے بچا لیں گے۔ اسی لئے انہوں نے بنی عبد المطلب کی سارہ نامی ایک مشترکہ لونڈی کو خط لکھ کر مکہ روانہ کیا (جو نبی کریم (ﷺ) کے پاس مالی مدد کے لئے آئی تھی) اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دے دی آپ نے فوراً علی، ابومرثد اور زبیر بن العوام تین مشہور گھوڑ سواروں کو اس سے خط چھین لینے کے لئے روانہ کیا، اور فرمایا کہ وہ عورت تمہیں (روضہ خاخ) میں مل جائے گی اگر وہ تمہیں خط دے دے تو اسے چھوڑدینا، ورنہ اسے قتل کردینا انہوں نے اسے (روضہ خاخ) میں جالیا، اور بڑی دھمکیوں کے بعد اس نے وہ خط اپنے بال کے جوڑے سے نکال کردیا جس میں حاطب نے بعض مشرکین مکہ کو نبی کریم (ﷺ) کے ارادے کی خبر دی تھی۔ آپ (ﷺ) نے حاطب سے پوچھا کہ ایسا تم نے کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجیے پھر انہوں نے خط لکھنے کا اصل سبب بیان کیا اور کہا کہ میں کافر نہیں ہوگیا ہوں اور اپنے دین سے پھر نہیں گیا ہوں۔ آپ نے صحابہ سے کہا کہ یہ سچ کہہ رہا ہے تو عمر (رض) نے کہا، اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں، تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : حاطب غزوہ بدر میں شریک ہوا تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ بدری صحابیوں کے دلوں سے خوب واقف تھا، اس لئے فرمایا ” اعملوا ماشئتم، فقد غفرت لکم“ ” اے اصحاب بدر اب تم چاہے جیسا عمل کرو، میں نے تمہیں معاف کردیا“ نبی کریم (ﷺ) کی بات سن کر عمر (رض) کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اسی حادثہ کے بعد اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم لوگ ان کافروں اور مشرکوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جو میرے اور تمہارے دشمن ہیں تم انہیں نبی کریم (ﷺ) کے جنگی اسرار بتاتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے دین حق کے منکر ہیں اور انہوں نے ہی رسول اللہ (ﷺ) کو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا تھا، حالانکہ تمہارا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے تھے۔ یہ ظالم کفار اس لائق نہیں ہیں کہ تم انہیں اپنا دوست بناؤ۔ اگر تم مکہ سے میری راہ میں جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا کی جستجو میں نکلے تھے تو تمہیں ان کافروں کو دوست نہیں بنایا چاہئے جو میرے اور تمہارے دشمن ہیں۔ تم ان سے اظہار دوستی کے لئے خفیہ طور پر رسول اللہ (ﷺ) کی خبریں ان تک پہنچانا چاہتے ہو، حالانکہ میں تو تمہارے تمام ظاہر و باطن کو جانتا ہوں اور تم نے دیکھ لیا کہ میں نے اپنے رسول کو اس خط کی اطلاع دے دی جو تم نے مشرکین مکہ کو بھیجا تھا۔ آیت (1) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ فرما دیا کہ تم میں جو شخص مشرکوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ دین اسلام کی سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے : سورۃ المائدہ آیت (51) میں فرمایا ہے : ” مومنو ! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ“ اور سورۃ النساء آیت (144) میں فرمایا ہے : ” اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ“ اور سورۃ آل عمران آیت (28) میں فرمایا ہے : ” مومنوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ “