سورة الحشر - آیت 11

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا ؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے (١)، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعًا جھوٹے ہیں (٢

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(9) اس آیت کریمہ کا تعلق آیت (2) میں مذکور بنی نضیر کے محاصرہ اور پھر ان کی جلا وطنی سے ہے، جب نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ کرام کے ساتھ ان کی بستی کا محاصرہ کرلیا تو سردار ان منافقین نے ان کو پیغام بھیجا کہ تم لوگ ثابت قدم رہو اور اپنے قلعوں سے نکلو، ہم لوگ تمہیں مسلمانوں کے حوالے نہیں ہونے دیں گے اور اگر جنگ کی نوبت آئے گی تو تمہارے شانہ بہ شانہ جنگ کریں گے اور اگر تمہیں مدینہ سے جانا پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ جائیں گے۔ چنانچہ بنی نضیر منافقین کے اس جھوٹے وعدے کی وجہ سے کچھ دنوں تو ڈٹے رہے، لیکن جب انہوں نے ان کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں دیکھا تو اللہ کا ایسا کرنا ہوا کہ ان پر مسلمانوں کا شدید رعب اور دبدبہ طاری ہوگیا اور فوراً رسول اللہ (ﷺ) کو خبر کی کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ یہاں سے انہیں نکل جانے کی اجازت دے دی جائے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے اونٹوں پر ہتھیار کے علاوہ جتنا سامان لے جا سکیں لے جائیں۔