سورة المجادلة - آیت 4

فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمے دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم بردری کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی وہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لئے دردناک عذاب ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

امام احمد، ابو داؤد، طبرانی اور بیہقی نے یوسف بن عبداللہ بن سلام سے اور انہوں نے خولہ بنت ثعلثہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کی قسم ! سورۃ المجادلہ کی ابتدائی آیتیں میرے اور میرے شوہر اوس بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی تھیں انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ پھر سے تک چار آیتیں نازل ہوئی تھیں۔ تو رسول اللہ (ﷺ) نے مجھ سے کہا کہ میں اوس کو ایک غلام آزاد کرنے کو کہوں تو میں نے کہا، یا رسول اللہ ! وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے، تو آپ نے کہا : پھر وہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے، تو میں نے کہا : اللہ کی قسم ! وہ تو بوڑھے ہیں، روزہ رکھنے کی ان میں کہاں طاقت ہے تو آپ نے کہا : پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو (ایک وسق کھجور) کھانا کھلائے۔ (الحدیث) آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یعنی ظہار کا حکم اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے حکم پر عمل کرو اس لئے کہ ایمان اعتقاد قول اور عمل تینوں کے مجموعہ کا نام ہے۔