يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے ورثے میں لے بیٹھو (١) انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو (٢) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں (٣) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے۔ (٥)
25۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کیا کرتے تھے اسی کی اس آیت میں تردید آئی ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (زمانہ جاہلیت میں) جب کوئی آدمی مر جاتا تھا، تو اس کے ورثہ اس کی بیوی کے زیادہ حق دار تھے، اور چاہتے تو اس کی شادی نہیں کرتے، اور اس کے شوہر کے ورثہ اس کے خاندان والوں سے زیادہ اس کے حقدار ہوتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 26۔ یہاں خطاب شوہر سے ہے اور عورتوں سے متعلق ایک دوسرا حکم بیان کیا جا رہا ہے، کہ ایک آدمی کسی وجہ سے اپنی بیوی سے نفرت کرنے لگے، اور اس کے ذمہ اس کا مہر باقی ہو، تو اسے تنگ کرنے لگے اور نقصان پہنچا نے لگے تاکہ بیوی مہر کی پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دے، اور اس کے بدلے میں اس سے طلاق لے لے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لیے اسے حرام قرار دیا ہے، ہاں، اگر عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے یا کھلم کھلا نافرمانی یا بدزبانی پر تل جاتی ہے، تو شوہر کے لیے یہ جائز ہے کہ جو مہر اس نے دیا تھا وہ لوٹا لے، اور اگر بیوی دینے سے انکار کرے تو اسے مجبور کرے۔ 27۔ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ قول وفعل کے ذریعہ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ بسا اوقات برا برتاؤ تعلقات میں کشیدگی، غیروں سے تعلقات، نافرمانی اور بد اخلاقی کا سبب ہوتا ہے۔ حافظ سیوطی نے (الاکلیل) میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا واجب ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اس کا پورا مہر ادا کرے، اخراجات اور باری کی تقسیم میں انصاف کرے، اس کے ساتھ نرم گفتگو کرے، اور بے سبب نہ اسے مارے اور نہ سختی کا برتاؤ کرے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر بالفرض تمہیں بیوی سے نفرت ہوگئی ہے، تو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے، اس لیے کہ آدمی بسا اوقات کسی چیز کو نہیں چاہتا، حالانکہ اس میں اس کے لیے کوئی خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ اسے اس کے بطن سے نیک اولاد عطا فرمائے، اور صبر کرنے اور اس پر خرچ کرنے کے بدلے آخرت میں اچھا بدلہ دے۔ مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ کوئی مؤمن مرد کسی مؤمنہ عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی ایک خصلت اسے بری لگے گی تو دوسری کوئی خصلت اچھی لگے گی۔ اسلام میں بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی بڑی ہی تاکید آئی ہے۔ ایک تو یہی آیت ہے جس کا ابھی آپ مطالعہ کر رہے ہیں۔ نیز نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے، اور میں اپنی بیویوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔ اس حدیث کو الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ، عائشہ، ابن عباس اور معاویہ (رض) سے ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی اور حاکم وغیرہم نے روایت کی ہے۔۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا برتاؤ اپنی بیویوں کے ساتھ غایت درجہ اچھا تھا، ہمیشہ ان کے ساتھ ہنستے چہرہ کے ساتھ بات کرتے، ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے، اور ام المؤمنین عائشہ کے ساتھ دوڑ لگاتے تھے، ہر رات ان سب کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے، اور سونے سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات کرتے تھے۔ اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مبارک ذات ان کی امت کے افراد کے لیے نمونہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی حسن سلوک کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذات تمہارے لیے اچھا نمونہ ہے۔