سورة النسآء - آیت 6

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

(٦) اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہوجانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھا لے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے (١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

8۔ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اولیاء کو حکم دیا ہے کہ کبھی کبھار کچھ مال دے کر عقلی اور مالی معاملات میں ان کی ذہنی صلاحیت کا امتحان لیتے رہو، اور جب بالغ ہوجائیں یعنی انہیں احتلام ہونے لگے، یا ان کی عمر پندرہ سال ہوجائے، اور تمہارے مشاہدے میں یہ بات آجائے کہ ان میں نیکی ہے، اور مالی امور میں سمجھدار اور ہوشیار ہیں، تو ان کا مال بغیر تاخیر ان کے حوالے کردو۔ آیت کریمہ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جو یتیم دینی یا مالی اعتبار سے نااہل ثابت ہوگا، مثال کے طور پر فضول خرچ ہوگا، یا ذہنی اور عقلی طور پر کمزور ہوگا، یا دینی اعتبار سے قابل اعتماد نہ ہوگا، تو اس کا مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے اولیاء کو نصیحت کی ہے کہ یتیموں کے مال میں فضول خرچی نہ کرو، اور تمہاری یہ نیت نہ ہو کہ ان کے بڑے ہونے سے پہلے ان کا مال بے جا خرچ کرو، اس ڈر سے کہ بڑا ہونے کے بعد وہ اپنا مال تم سے لے لیں گے، اور اگر یتیم کا ولی مالدار ہے، تو اسے اس کا مال کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ وہ مال اس کے لیے مردے اور خون کی مانند حرام ہے اور اگر غریب ہے، اور یتیم کے مال کی دیکھ بھال اور اس میں کاروبار کی وجہ سے اپنے بچوں کے لیے دوسرا کام نہیں کرسکتا، اور دیکھ بھال نہ کرنے سے یتیم کا مال ضائع ہوجائے گا، تو اپنی ضرورت اور اپنی محنت کی مناسب مزدوری لے لے۔ حافظ ابن کثیر نے فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنی مزدوری اور اپنی ضرورت میں سے جو کم ہوگا وہ لے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جب سن بلوغ کو پہنچنے اور عقل و سمجھ کا یقین ہونے کے بعد، یتیم کا مال اس کے حوالے کرو تو گواہ بنا لو، تاکہ بعد میں کوئی تمہیں متہم نہ کرے، اور کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہوجائے، اور اللہ تو سب سے بڑا گواہ اور تمہارے ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے، اس لیے یتیم کا مال پوری امانت کے ساتھ اس کی طرف منتقل کردو۔