وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ
وہ آباد گھر کی (١)۔
اورسے مراد وہ گھر ہے جو ساتویں آسمان پر پایا جاتا ہے اور جسے نبی کریم (ﷺ) نے معراج کی رات میں دیکھا تھا اور دیکھا تھا کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں اور دوبارہ اس سے باہر لوٹ کر نہیں آتے ہیں، فرشتے اس گھر کا اسی طرح طواف کرتے ہیں جس طرح اہل زمین خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، نبی کریم (ﷺ) نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ساتویں آسمان پر اسی بیت معمور سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا تھا اور یہ بیت معمور بالکل کعبہ کے سامنے ہے اور اسی طرح کا ایک گھر ہر آسمان پر پایا جاتا ہے، جس کے اردگرد اس آسمان پر رہنے والے عبادت کرتے ہیں، آسمان دنیا کے گھر کا نام ” بیعت العزۃ“ ہے۔ بعض لوگوں نے “ سے مراد خانہ کعبہ لیا ہے، پہلی تفسیر کے مطابق وہ گھر فرشتوں کی عبادت سے آباد ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق حج اور عمرہ کرنے والوں، طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور دیگر عبادت گذاروں سے آباد رہتا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل نے دوسری تفسیر کو سورۃ التین کی دوسری اور تیسری آیات (وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ) کی روشنی میں ترجیح دی ہے، یعنی وہاں طور سینا کے ساتھ بلد امن ” مکہ مکرمہ“ کا ذکر آیا ہے، اس لئے یہاں بھی طور کے ذکر کے بعد ” بیت معمور“ سے مراد خانہ کعبہ ہے جو مکہ میں ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے۔