مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
میرے ہاں بات بد لتی نہیں (١) نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں۔
(21) ابلیس نے آدم و حوا کو وسوسہ میں ڈال کر جب جنت سے نکلوا دیا تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا تھا : ” میں جہنم کو یقیناً جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔“ (ہود : 119) اسی فیصلہ کی طرف اشارہ ہے کہ میں نے کافروں اور رسولوں کی نافرمانی کرنے والوں کے بارے میں جو فیصلہ کردیا ہے، وہ ہرگز نہیں بدلے گا اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر ظلم کروں گا کہ مطیع و فرمانبردار کو عذاب دوں، یا کافر و نافرمان کو جنت میں داخل کر دوں۔ مفسر قاشانی نے کی تفسیر یہ کی ہے کہ ” میں نے بندوں کو قبول حق کی استعداد دی، انہیں خیر و شر سے آگاہ کیا اور راہ حق کی طرف ان کی رہنمائی کردی، اس لئے میں نہیں، بلکہ وہ خود ہی اپنے حق میں ظالم ہیں کہ روشنی اور نور کو چھوڑ کر ظلمت و تاریکی کو اختیار کرتے ہیں، اور دائمی نعمت یعنی جنت کو نظر انداز کر کے فانی یعنی دنیاوی لذتوں اور شہوتوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔