وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں (١) اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔
(6) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والو ! تم یہ نہ بھولو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول بھی رہتے ہیں، اگر تم جھوٹ بولو گے، افترا پردازی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری حقیقت حال سے انہیں باخبر کر دے گا۔ اور تم یہ بھی جان لو کہ اگر رسول اللہ (ﷺ) تمام معاملات میں تمہاری رائے قبول کرتے اور تمہاری ہر بات مان لیتے تو بہت سے امور میں تم اپنی طاقت سے بھاری مشقتوں میں پڑجاتے اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتے، اس لئے کہ تمہاری بہت سی رائیں غلط ہوتیں جنہیں رسول اللہ (ﷺ) مان کر ان پر عمل کرتے اور بڑی بڑی غلطیاں کرتے، جیسا کہ بنی المصطلق کے بارے میں ولید بن عقبہ کی جھوٹی بات مان لینے کی وجہ سے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) ان کے خلاف فوج کشی کر کے انہیں قتل کردیتے اور ناحق ان کے مال پر قبضہ کرلیتے، اسی لئے وہ تمہاری کسی رائے پر اس وقت تک عمل نہیں کرتے جب تک اس پر غور نہیں کرلیتے ہیں۔ اور تم پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا کہ تمہارے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا ہے اور اس میں کفر باللہ، کذب بیانی اور رسول اللہ (ﷺ) کی مخالفت کی نفرت بیٹھا دی ہے، جس کی برکت سے تم بہت سی مشقتوں سے نجات پا جاتے ہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں شہادت دی کہ درحقیقت یہی لوگ راہ حق پر چلنے والے، اور اس پر شدت کے ساتھ قائم رہنے والے ہیں۔