يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (١) ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
(5) حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جسے رسول اللہ (ﷺ) نے بنی المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ اس واقعہ کو امام احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مندہ اور ابن مردویہ نے (سیوطی کے قول کے مطابق) سند جید کے ساتھ حارث بن ضرار خزاعی سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حارث خزاعی نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آ کر اسلام قبول کرلیا اور آپ سے کہا کہ میں اپنی قوم کے مسلمانوں کی زکاۃ جمع کر کے رکھوں گا اور آپ کا نمائندہ آ کر مجھ سے وہ مال وصول کرلے گا۔ آپ (ﷺ) نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو اس کام کے لئے بھیجا، لیکن وہ بنو خزاعہ کے ڈر سے راستہ سے ہی واپس آگیا اور آپ (ﷺ) سے کہہ دیا کہ حارث نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا اور مجھے قتل کرنا چاہا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے کچھ لوگوں کو حارث کی طرف بھیجا ادھر حارث نے جب رسول اللہ (ﷺ) کے ایلچی کی آمد میں تاخیر محسوس کی، تو کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) سے ملنے کے لئے روانہ ہوگئے، راستہ میں دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تو حقیقت حال معلوم ہوئی اور حارث نے رسول اللہ (ﷺ) کو بتایا کہ ولید بن عقبہ میرے پاس نہیں آیا تھا، تو اس کی کذب بیانی کا حال رسول اللہ (ﷺ) کو معلوم ہوا اور اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” المعارف“ میں لکھا ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابی معیط، عثمان بن عفان (رض) کا سوتیلا بھائی تھا، دونوں کی ماں اروی بنت کریز تھی، فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا، رسول اللہ (ﷺ) نے اسے بنی المطلق کی زکاۃ لانے کے لئے بھیجا تھا، لیکن وہ راستہ سے ہی سے واپس آگیا اور آپ (ﷺ) سے کہہ دیا کہ انہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا ہے، وہ جھوٹا تھا اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ جب کوئی فاسق معصیت کبیرہ کا مرتکب، کوئی اہم خبر لے کر آئے تو جلدی نہ کرو اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم عجلت اور نادانی میں کسی قوم کی جان و مال کو نقصان پہنچا دو اور حقیقت کا پتہ چلنے کے بعد تمہیں ندامت اٹھانی پڑے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ فاسق کی خبر رد کردی جائے گی اور خبر دینے والا چاہے رواوی ہو، شاہد ہو، یا مفتی ہو، اس کا ثقہ اور عدل ہونا ضروری ہے اور اگر وہ ثقہ اور عدل ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی، اگرچہ وہ اکیلا راوی ہے۔