يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (١)
(2) اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ جب وہ رسول کریم (ﷺ) کی مجلس میں ہوں تو اتنی اونچی آواز سے نہ بولیں کہ ان کی آواز آپ (ﷺ) کی آواز سے بلند ہوجائے اور آپ (ﷺ) کو اس طرح نہ پکاریں جس طرح وہ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں بلکہ نہایت مؤدبانہ طور پر دھیمی آواز میں اس طرح پکاریں جس طرح نہایت معظم و محترم اور صاحب ہیبت انسان کو پکارا جاسکتا ہے، اس لئے کہ آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی اللہ کے نزدیک گناہ عظیم ہے اور ایسا کرنے والے کے سارے نیک اعمال غیر شعوری طور پر ضائع ہو سکتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی وفات کے بعد اس آیت کے پیش نظر، مسلمانوں پر واجب ہے کہ جب بھی آپ کا ذکر جمیل آئے، یا آپ کا کوئی حکم یا کوئی حدیث بیان کی جائے تو ادب و احترام محلوظ رکھا جائے، آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی نہ ہونے پائے، آپ کی حدیث پر کسی دوسرے کے قول کو مقدم نہ کیا جائے، چاہے وہ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو۔ حاکم نے صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے، میں جب تک زندہ رہوں گا آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کروں گا حاکم نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے اور بخاری و مسلم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثابت بن قیس بن شماس نے کہا : جن کی آواز اونچی تھی کہ میری ہی آواز رسول اللہ (ﷺ) کی آواز سے اونچی ہوتی ہے، میرے اعمال برباد ہوگئے، اور میں اہل جہنم میں سے ہوں، اور محزون و مغموم اپنے گھر میں جا کر بیٹھ گئے صحابہ کرام نے جب آپ (ﷺ) کو ان کے حال کی خبر دی، تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : نہیں وہ تو اہل جنت میں سے ہیں، چنانچہ وہ یمامہ میں مرتد ہونے والوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مارے گئے۔