سورة الفتح - آیت 27

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ انشاء اللہ تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے سر منڈواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر (١)، وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے (٢) پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی (٣)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(18) نبی کریم (ﷺ) نے مدینہ میں 6 ھ میں خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، چنانچہ آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ کرنے کا اعلان کردیا اور راستہ میں انہیں اپنے خواب کی اطلاع دی تو تمام صحابہ بہت خوش ہوئے، لیکن جب مکہ میں داخل نہیں ہوئے اور صلح کی تلخ شرطیں قبول کر کے مدینہ واپس ہونے لگے تو انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ آپ نے جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر کیا ہے؟ اور منافقین کہنے لگے کہ ہم نے نہ بال منڈایانہ نہ کٹوایا اور نہ مسجد حرام میں داخل ہوئے، آخر یہ کیسا عمرہ ہے؟! انہی حالات میں حدیبیہ سے واپس آتے ہوئے یہ پوری سورت نازل ہوئی، اور یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے رسول کا خواب یقیناً سچ کر دکھلائے گا، ان کا خواب برحق ہے، مسلمانو ! تم لوگ اگر اللہ چاہے گا، تو ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے، درانحالیکہ تم ہر خوف و خطر سے دور ہو گے اور عمرہ کر کے اپنے سر کے بال یا تو منڈواؤ گے یا کٹاؤ گے، تمہیں کسی قسم کا ڈر لاحق نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے ہو (یعنی مکہ میں مسلمان مردوں اور عورتوں کا پایا جانا اور جنگ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کئے جانے کا خطرہ) اسی لئے اس نے اس سال تمہیں مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے اور خواب کے مطابق دخول مکہ سے پہلے، صلح حدیبیہ کے لئے حالات سازگار کئے جو درحقیقت نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کے لئے عظیم فتح کے مترادف ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں سے ” فتح خیبر“ مراد لیا ہے، لیکن اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ اس سے مرادن ” صلح حدیبیہ“ ہے۔ حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کا خواب ذی القعدہ 7ہمیں عمرۃ القضاء کی صورت میں پورا ہوا، ذی القعدہ 6 ھ میں حدیبیہ سے واپسی کے بعد، آپ (ﷺ) نے ذی الحجہ اور محرم دو ماہ مدینہ میں قیام کیا، صفر میں خیبر کو فتح کیا اور ذی القعدہ 7 ھ میں عمرہ کی نیت سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ (ﷺ) کے ساتھ وہی صحابہ کرام تھے جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے اور اس بار آپ اپنے ساتھ قربانی کے ساٹھ (60) اونٹ لے گئے تھے مکہ پہنچنے کے بعد آپ نے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کیا، جس کی تفصیل سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔