لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے (١) ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا (٢) اور ان پر اطمینان نازل فرمایا (٣) اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ (٤)
(12) یہی وہ بیعت ہے جو صحابہ کرام نے رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ پر حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے کی تھی، اس کا ذکر آیت (10) میں بھی آچکا ہے اور وہاں بتایا جا چکا ہے کہ اسے ” بیعت رضوان“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جن صحابہ کرام نے یہ بیعت کی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کی خوشخبری دی تھی، وہ خوشخبری اسی آیت (18) میں دی گئی ہے نبی کریم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ جن مومنین نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے ان سے اللہ راضی ہوگیا اس بیعت کی بنیادی شرط یہ تھی کہ کفار قریش سے جنگ کرنے میں ہر شخص اپنی جان کی بازی لگا دے گا اور کسی حال میں بھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے گا۔