سورة الفتح - آیت 16

قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے (١) پس اگر تم اطاعت کرو (٢) گے تو اللہ تمہیں بہت بہتر بدلہ دے گا (٣) اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منہ پھیر چکے ہو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا (٤)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(10) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی زبانی عمرہ حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہا کہ عنقریب تمہیں ایک زبردست طاقتور قوم سے جنگ کرنے کے لئے بلایا جائے گا، اس طاقتور قوم کی تعیین میں علمائے تفسیر کے کئی اقوال ہیں، کسی نے فارس، کسی نے روم، کسی نے دونوں، کسی نے ہوازن و ثقیف، اور کسی نے مسلیمہ کذاب کے ماننے والوں کو مراد لیا ہے۔ واحدی نے اکثر مفسرین سے آخری قول نقل کیا ہے، اس لئے کہ یہاں دوہی صورت بتائی گئی ہے، یا تو وہ لوگ اسلام لائیں گے، یا ان کا فیصلہ تلوار کرے گی، ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور مسلیمہ کذاب کے ماننے والے ہی وہ لوگ تھے جن سے جزیہ لینا جائز نہیں تھا، اہل فارس اور اہل روم سے تو جزیہ لیا جاسکتا تھا اس لئے کہ وہ لوگ اسلام لانے کے بعد مرتد نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ تم ان سے قتال کرو گے، الایہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں اگر تم اس دعوت جہاد پر لبیک کہو گے اور ان سے قتال کرو گے، تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں مال غنیمت اور آخرت میں جنت دے گا اور اگر عمرہ حدیبیہ کی طرح اس بار بھی تم جہاد کے لئے جانے سے کتراؤ گے، تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔