بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا
نہیں بلکہ تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعًا ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا (١) دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے۔ (٢)
آیت (12) میں نبی کریم (ﷺ) کی زبانی ہی ان سے کہا گیا ہے کہ تم یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمانان مدینہ میں سے کوئی بھی بچ کر نہ آسکے گا، کفار قریش ہم میں سے ایک ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے اور شیطان نے تمہارے دلوں میں اس خیال کو خوب پختہ کردیا کہ اب ہمارا رب ہماری مدد نہیں کرسکے گا اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی واپس نہیں لوٹے گا یہی اصل وجہ تھی کہ تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں گئے، وہ عذر صحیح نہیں ہے جو تم نے اپنی زبان سے بیان کیا ہے۔ اور تم اپنے اسی نفاق، کذب بیانی اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اور اپنی ہلاکت و بربادی کے مستحق بن گئے ہو۔