سورة الفتح - آیت 1

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔ (١)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(1) جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، یہاں ” فتح“ سے مراد ” صلح حدیبیہ“ ہے، امام بخاری نے براء بن عازب (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ ” ہم لوگ یوم حدیبیہ کی بیعت رضوان کو فتح کہتے ہیں“ امام احمد ابوداؤ د اور حاکم وغیرہم نے مجمع بن جاریہ انصاری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب حدیبیہ سے واپسی کے وقت رسول اللہ (ﷺ) نے ” کراع الغمیم“ نامی مقام پر إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا Ĭکی تلاوت کی تو ایک صحابی نے آپ (ﷺ) سے پوچھا کہ یہ ” فتح“ ہے؟“ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا :” ہاں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ ” فتح“ ہے۔ “ ا ور یہ صلح درحقیقت ” فتح“ کیسے تھی؟ اس کے اسباب و وجوہ اوپر بیان کئے جا چکے ہیں۔