الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کی بابت کہا کہ اگر وہ بھی ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے کہہ دیجئے! کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی جانوں سے موت کو ہٹا دو (١)۔
انہی منافقین کے بارے میں جو مقام شوط سے واپس چلے گئے تھے، کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ گئے، اور اپنی نجی مجلسوں میں کہنے لگے، کہ اگر وہ لوگ ہماری بات مانتے اور باہر نہ نکلتے تو قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا، آپ ان سے کہئے اگر تمہارا دعوی صحیح ہے کہ تم موت کو ٹال سکتے ہو، تو ذرا اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ، چونکہ وہاں تمہارا قتل ہونا اللہ کی تقدیر میں نہیں لکھا تھا، اس لیے تم وہاں قتل نہیں ہوئے، تمہارے گھروں میں بیٹھ جانے سے تمہاری تقدیر نہیں بدل گئی، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں، واقعہ احد کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ منافقین نے ازخود اپنے دل کی بات کہی، جسے مسلمانوں نے سنا، اور اللہ نے جو جواب دیا، اسے بھی مسلمانوں نے سنا، اور نفاق اور اس کے انجام کو جانا، کہ کس طرح منافق دنیا و آخرت کی نیک بختیوں سے محروم ہوجاتا ہے اور ہر بدبختی اسے گھیر لیتی ہے۔