وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے (١) جن سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کافروں کو ہٹاؤ تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے (٢) وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر کے بہت نزدیک تھے (٣) اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ منافقین اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی کے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی کوئی شخص کفر کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اور کبھی کوئی شخص ایمان کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ واحدی نے لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ جو آدمی اپنی زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے گا، اس کا کفر جانتے ہوئے بھی اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اللہ نے ان منافقین کی یہ صفت بیان کی کہ وہ اپنی زبان سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں۔