سورة الأحقاف - آیت 17

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا (١) تم مجھ سے یہ کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد زندہ ہوجاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں (٢) وہ دونوں جناب باری میں فریاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے، وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں (٣)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(13) اوپر مومن لڑکے کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں، اب کافر لڑکے اور اس کی بد اعمالیوں کو بیان کیا جا رہا ہے کہ جب اس کے والدین نے اسے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کی دعوت دی تو اس نے ان سے کہا کہ میں تم سے اور تمہاری باتوں سے تنگ آچکا ہوں، کیا تم مجھے اس بات کا یقین دلانا چاہتے ہو کہ مرنے کے بعد اپنی قبر سے دوبارہ اٹھایا جاؤں گا، حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں آئیں اور گذر گئیں اور کوئی واپس نہیں آیا ماں باپ اس کی کافرانہ باتیں سن کر اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے توفیق ایمان کی دعا کرنے لگے اور اس سے کہنے لگے کہ اپنی ہلاکت و بربادی سے بچو، ایمان لے آؤ، اللہ کے وعدہ آخرت کی تصدیق کرو اور اقرار کرلو کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے اللہ کا اپنی مخلوق سے یہ وعدہ برحق ہے کہ وہ انہیں ان کی قبروں سے زندہ اٹھا کر میدان محشر میں لاکھڑا کرے گا، تاکہ ان کے اعمال کا انہیں بدلہ چکائے۔ کافر لڑکے نے اپنے ماں باپ کی نصیحت کو ٹھکرا دیا اور اللہ کے وعدہ آخرت کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ بعث بعد الموت کا عقیدہ گزشتہ قوموں میں رائج ایک افسانہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔