قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ
آپ کہہ دیجئے! اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا (١)۔
(36) ابتدائے سورت میں کفار عرب کے اس زعم باطل کی تردید کی گئی ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اسی مشرکانہ خیال کی یہاں دوسرے اسلوب میں تردید کی گئی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کی زبانی کہا گیا ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کی کوئی اولاد ہوتی، تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرتا، لیکن چونکہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس لئے میں اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا ہوں۔ قاشانی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں دلیل و برہان کے ذریعہ اللہ کے لئے اولاد ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ یعنی نبی کریم (ﷺ) کا کسی کی اس حیثیت سے عبادت نہ کرنا کہ وہ اللہ کی اولاد ہے، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس لئے کہ اگر اس کی کوئی اولاد ہوتی تو نبی کریم (ﷺ) اس کی ضرور عبادت کرتے۔ نیز اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) سے شرک کی نفی کی گئی ہے۔ کہ آپ (ﷺ) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔