سورة الشورى - آیت 48

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا، آپ کے ذمہ تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے ہم جب کبھی انسان کو اپنی مہربانی کا مزہ چکھاتے (١) ہیں تو وہ اس پر اترا جاتا ہے (٢) اور اگر انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت (٣) پہنچتی ہے تو بیشک بڑا ہی ناشکرا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(28) نبی کریم (ﷺ) سے کہا گیا ہے کہ اگر لوگ آپ کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے ہیں، تو نہ کریں، آپ ان کے اوپر داروغہ بنا کر انہیں بھیجے گئے ہیں، آپ کا کام تو محض پیغام رسانی ہے، جو آپ کر رہے ہیں، ان کے کفر و شرک کا ملال نہ کریں، اور ان کا معاملہ ہمارے حوالے کردیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں کافر اور ضعیف الایمان انسان کی حالت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اسے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تو مارے خوشی کے آپے سے باہر نکلنے لگتا ہے اور شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے اور جب اسے اس کے برے اعمال کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کی ساری نعمتوں اور اس کے سارے احسانات کو بھل جاتا ہے اور صرف اسی تکلیف کو یاد کر کے ناشکری کرنے لگتا ہے، وہی کافر جب نعمت ایمانی سے مشرف ہوجاتا ہے تو اس کی حالت یکسر بدل جاتی ہے اور اس کی طبیعت میں پاکیزگی آجاتی ہے جب کوئی نعمت ملتی ہے تو شکر گزار ہوتا ہے اور جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔