وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے (١)
(21) اللہ کے علم و قدرت کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ انسان کا کوئی عمل بھی اس سے مخفی نہیں ہوتا ہے اور اس کا کوئی بھی کام مکافات عمل کے قدرتی نظام سے خارج نہیں ہوتا ہے، مسلمان کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ دلیل ہوتی ہے کہ اس سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں کوئی تکلیف دے کر مٹا دینا چاہتا ہے اور بہت سی غلطیوں اور خطاؤں کو وہ اپنے فضل و کرم سے معاف کردیتا ہے، اس پر مواخذہ نہیں کرتا ہے۔ ترمذی نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ بندے کو کوئی بھی چھوٹی یا بڑی تکلیف پہنچتی ہے تو ایسا اس کے کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جن گناہوں کو وہ معاف کردیتا ہے وہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ واحدی نے لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ مومن کو اس سے زیادہ پرامید بناتی ہے، اس لئے کہ مومن کے گناہوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے، ایک حصہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مصائب و تکلیف میں مبتلا کر کے مٹا دیتا ہے اور دوسرے بڑے حصے کو اپنے فضل و کرم سے دنیا میں ہی معاف کردیتا ہے اور کافر کے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دی جاتی ہے، اس کے سارے جرائم و معاصی قیامت کے دن کے لئے اٹھا کر رکھ دیئے جاتے ہیں۔