سورة الشورى - آیت 24

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ کہتے ہیں کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے (١) اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے (٢) اور سچ کو ثابت رکھتا ہے۔ وہ سینے کی باتوں کو جاننے والا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(18) مشرکین کہتے تھے کہ محمد جھوٹا ہے، اللہ نے اسے اپنا نبی نہیں بنایا ہے اور نہ ہی بذریعہ وحی اس پر اپنا قرآن نازل کیا ہے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے ان کی اس افترا پردازی کی تردید یوں کی ہے کہ اگر آپ ہمارے نبی نہ ہوتے اور قرآن ہمارا کلام نہ ہوتا بلکہ آپ کی افتر اپردازی ہوتی تو اللہ تعالیٰ آپ کے دل پر مہر لگا دیتا، نہ کوئی معنی آپ کی سمجھ میں آتا اور نہ کوئی حرف آپ کی زبان سے ادا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وحی کا سلسلہ جاری ہے، قرآن نازل ہو رہا ہے اور دین اسلام کے احکام مدون ہو رہے ہیں یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اللہ آپ سے راضی ہے اور قرآن ہمارا کلام ہے، اور مشرکین عرب جھوٹے ہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بہر حال باطل کی بیخ کنی کردیتا ہے اور قرآنی آیات کے ذریعہ حق کی جڑوں کو مضبوط کردیتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں بھی مشرکین مکہ کی گزشتہ افتر اپردازی کی تردید کی گئی ہے کہ اگر قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا تو وہ اسے ضرور مٹا دیتا۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ اس میں نبی کریم (ﷺ) کے لئے وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کی افتر اپردازیوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا اور قرآن کریم کے ذریعہ دعوت حق کی جڑوں کو وہ ضرور مضبوط کرے گا انتہی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ (ﷺ) کی وفات کے وقت جزیرہ عرب مشرکوں سے پاک ہوگیا اور توحید کا علم ہر طرف لہرانے لگا۔