وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا (١) اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
(10) کفار قریش کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اپنا کوئی نبی بھیجے گا تو اس پر ایمان لے آئیں گے اور یہود و نصاریٰ سے زیادہ راہ راست پر چلنے والے بن جائیں گے، لیکن جب نبی کریم (ﷺ) مبعوث ہوئے، تو انہوں نے حق کو پہچانتے ہوئے ان کی رسالت پر ایمان لانے سے صرف اس لئے انکار کردیا کہ زمانہ جاہلیت سے ان کو جو سیادت چلی آرہی تھی وہ خطرے میں پڑگئی تھی، اس لئے دل میں اعتراف حق کے باوجود محض جاہلی حمیت کی وجہ سے اسے قبول نہیں کیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں یہود و نصاریٰ مراد ہیں، جیسا کہ سورۃ البینہ آیت (4) میں آیا ہے : ﴿وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ﴾” اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آجانے کے بعد متفرق ہوگئے۔ “ بعض دیگر مفسرین نے لکھا ہے کہ عرب اور یہود و نصاری سبھی مراد ہیں اور یہی قول راجح ہے اس لئے کہ نبی کریم (ﷺ) کی بعثت کے بعد تینوں گروہوں میں سے کچھ نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور کچھ نے حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حق کا انکار کرنے والے ان عرب اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ اگر اللہ کا یہ فیصلہ پہلے ہی نہ ہوچکا ہوتا کہ انہیں دنیا میں عذاب دے کر ہلاک نہیں کیا جائے گا، بلکہ قیامت کے دن تک کے لئے ان کی سزا مؤخر کردی گئی ہے، تو ان کے جرائم ایسے ہیں کہ انہیں فی الفور ہلاک کردیا جاتا۔ آیت کے آخر میں نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں پائے جانے والے عربوں اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ قرآن، نبی کریم (ﷺ) اور دین اسلامی کی صداقت کے بارے میں خود غایت درجہ شک و شبہ میں مبتلا ہیں اور اپنی سوسائٹی میں اسلام کے خلاف شبہات پھیلا کر دوسروں کو بھی قبول حق سے روکتے ہیں۔