شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ (١) ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے (٢) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا (٣) ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے (٤)۔
(9) آیت (13) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آپ پر اور آپ سے پہلے دیگر انبیاء پر اللہ نے وحی نازل کی ہے اس آیت کریمہ میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور ان چاروں اولوالعزم انبیاء کو جن کا اس آیت میں ذکر آیا ہے، ایک ہی بات کا حکم دیا ہے کہ صرف اسی ذات واحد کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت (25) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ ” ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا تو اس کو بذریعہ وحی یہی حکم دیا کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی لئے تم سب صرف میری ہی عبادت کرو“ اور صحیح بخاری، کتاب الانبیاء میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ ہم انبیاء ایک ماں کی اولاد کی مانند ہیں، ہمارا دین ایک ہے (یعنی ایک اللہ کی بندگی کرنا، اگرچہ ہماری شریعتیں مختلف رہی ہیں) آیت میں انہی پانچ اولوالعزم انبیاء کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ یہ حضرات بڑے انبیائے کرام تھے، ان کی شریعتیں بھی عظیم تھیں اور ان کے ماننے والے دنیا میں بہت بڑی تعداد میں ہوئے ہیں، نیز کافروں کے دلوں کو دین اسلام کی طرف مائل کرنا بھی مقصود ہے، اس لئے کہ ان انبیائے کرام میں بعض ایسے بھی ہیں جن کے نبی ہونے پر تمام کا اتفاق ہے اور ان کا دین بھی دین اسلام تھا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کا لوگوں کو توحید کی طرف بلانا کفار قریش پر بڑا ہی گراں گذرتا ہے، لیکن آپ ہمت نہ ہاریئے اور پورے عزم و ثبات کے ساتھ اللہ کا پیغام ان تک پہنچاتے رہئے، کون قبول کرتا ہے اور کون اسے رد کردیتا ہے یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ اپنی حکمت و مصلحت اور مرضی کے مطابق جسے چاہتا ہے ایمان باللہ کی توفیق دیتا ہے اور وہ اس عظیم خیر کو قبول کرنے کی توفیق اسے دیتا ہے جو اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اس کی بندگی کی راہ پر لگ جاتا ہے اور جو باطل پر اصرار کرتا ہے اسے ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔