وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (١) (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بے ہودہ گوئی کرو (٢) کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ (٣)
(18) ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) مکہ مکرمہ میں اونچی آواز سے قرآن پڑھتے، تو مشرکین سننے والوں کو وہاں سے بھگادیتے اور کہتے کہ ” تم لوگ اس قرآن کو نہ سنو، اور دوسری بے ہودہ باتیں کرنے لگو، تاکہ سننے والوں کو اس سے روک سکو“ اور جب پست آواز سے پڑھتے تو جو لوگ قرآن سننا چاہتے وہ سن نہیں پاتے تو سورۃ الاسراء کی آیت (110) ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا﴾ نازل ہوئی، یعنی ” نہ تو آپ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھئے اور نہ بالکل پوشیدہ“ مشرکین مکہ کے اسی معاندانہ رویہ کو اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے مجاہد نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ خوب مذاق اڑاؤ، تالیاں بجاؤ، اور ادھر ادھر کی باتیں کروتاکہ محمد کی قرأت بے معنی بن جائے ﴿لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ﴾ کا مفہوم یہ ہے کہ اس طرح تمہاری آوازیں محمد کی آواز پر غالب آجائیں گی اور وہ قرآن پڑھنے سے باز آجائے گا۔