لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ
اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں (١) اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے (٢) یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
91۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے، جس سے مقصود نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو متنبہ کرنا ہے کہ کہیں آپ کے ذہن و دماغ میں یہ بات نہ آجائے کہ آپ کی ذات بھی کچھ مؤثر ہے، اور آپ کے عقیدہ توحید میں فرق آجائے، آپ تو ایک انسان ہیں آپ کا کام اللہ کے حکم کے مطابق انسانوں کو ڈرانا ہے، ان کی بخشش یا عذاب کا معاملہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کسی دن فجر کی نماز میں کہا کرتے تھے کہ اے اللہ ! فلاں اور فلاں قبائل عرب پر لعنت بھیج، تو یہ آیت اتری کہ ابن عمر (رض) سے بخاری اور احمد نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فجر کی دوسری رکعت میں حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ پر لعنت بھیجتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اس کے بعد توبہ کیا اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کی۔ انس بن مالک سے امام احمد نے روایت کی ہے کہ جب جنگ احد میں آپ زخمی ہوئے، تو کہا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنی نبی کے ساتھ ایسا کیا، تو یہ آیت اتری،