سورة غافر - آیت 34

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے، (١) پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے (٢) یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی (٣) تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں (٤)، اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک شبہ کرنے والا ہو (٥)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

19 -مرد مومن نے اپنی دعوتی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا : اے اہل مصر ! موسیٰ سے پہلے تمہارے پاس یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) معجزات اور اپنی صداقت کی کھلی نشانیاں لے کر آئ ےتھے اور بیس سال تک تمہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے رہے اور خود ان کا اعلیٰ ترین کریکٹر ان کی پاک باطنی اور ان کے نبی ہونے کی گواہی دیتا رہا، لیکن تم لوگ ان کے لائے ہوئے دین توحید میں شک ہی کرتے رہے اور جب ان کی وفات ہوگئی تو تم بہت خوش ہوئے اور اپنے کفر کی وجہ سے کہنے لگے کہ اب یوسف کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا، یعنی تم نے یوسف اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کا انکار کردیا، یہ تمہاری ضلالت و گمراہی کی انتہا تھی۔ اللہ تعالیٰ افترا پردازی میں حد سے تجاوز کرنے والے اور ہر بات میں شک کرنے والے کو اسی طرح گمراہ کردیتا ہے