فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
پس جب ان کے پاس (موسیٰ علیہ السلام) ہماری طرف سے (دین) حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو (١) اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے (٢)
موسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان کے سامنے اپنے رب کی دعوت توحید پیش کی اور عصائے موسیٰ، ید بیضاء اور دیگر معجزات پیش کئے جو ان کے رسول ہونے پر پوری صراحت کے ساتھ دلالت کرتے تھے اور فرعونیوں سے کچھ نہ بن پڑا، تو کہنے لگے کہ یہ تو کوئی بڑا جھوٹا اور جادوگر ہے اور آپس میں سازش کی کہ جو لوگ موسیٰ پر ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں کو خدمت کے لئے زندہ رکھا جائے اور اس سے مقصود بنی اسرائیل کی اہانت، ان کی تعداد کم کرنا اور ان کے دلوں میں یہ بات بٹھانی تھی کہ موسیٰ ہی ان کی بربادی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ فرعون کا بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا یہ دوسرا آرڈر تھا۔ پہلی بار موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے قبل تھا، اس کے بعد اس نے قتل کرنا بند کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں کی سازش دھری کی دھری رہ گئی، دین موسوی پھیلتا گیا، بنی اسرائیل کی نسل میں افزائش ہوتی رہی اور بالاخر فرعون اور فرعونی اپنے آخری انجام کو پہنچ گئے۔