قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے (١)
34 -واحدی نے لکھا ہے : تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے شرک، قتل اور نبی کریم (ﷺ) کی ایذا رسانی جیسے گناہوں کا ارتکاب کیا تھا اور اسلام لانا چاہتے تھے، لیکن ڈرتے تھے کہ شاید ان کے گناہ معاف نہیں کئے جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (ﷺ) کو حکم دیا کہ انہیں اور اللہ کے تمام بندوں کو اس کی وسیع رحمت اور عظیم مغفرت کی خوشخبری دے دیں کہ انہیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے، وہ تو اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اس لئے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت قرآن کریم کی سب سے زیادہ امید بھری آیت ہے۔ اس میں اللہ نے بندوں کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور پھر انہیں گناہوں کے ارتکاب میں حد سے متجاوز ہونے کی صورت میں اپنی رحمت سے ناامید ہونے سے منع فرمایا ہے اور یہ کہہ کر مزید کرم فرمایا کہ وہ تو تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ کافر و مومن تمام گناہ گاروں کو توبہ کی دعوت دیتی ہے اور خبر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے چاہے وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔