إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لئے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راہ راست پر آجائے اس کے اپنے لئے نفع ہے اور جو گمراہ ہوجائے اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے، آپ ان کے ذمہ دار نہیں (١)
(26) اہل قریش کے کفر پر اصرار کی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) کو تکلیف ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی کہ ہم نے آپ کو کتاب حق دے کر مبعوث کیا ہے اور آپ کی ذمہ داری تبلیغ و بیان کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ آپ کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے ہیں جو شخص قرآن پر ایمان لائے گا اور ایمان و عمل کی زندگی اختیار کرے گا اس کا فائدہ اسے ہی ملے گا کہ وہ جہنم سے نجات پائے گا اور جنت کا حقدار بنے گا، اور گمراہ ہوگا تو اس کا انجام بد وہ خود بھگتے گا بایں طور کہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اللہ کی لعنت و غضب کا مستحق بنے گا۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت، آیت جہاد کے ذریعہ منسوخ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ وہ کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ پڑھ لیں اور احکام اسلام کے پابند ہوجائیں۔